انسانی دماغ ہمیشہ سے ہی مٹھاس کا دیوانہ رہا ہے مگر ماضی میں کبھی ہمارے آباء و اجداد کو بہت زیادہ چینی اور کیلوریز سے بھرپور کولڈ ڈرنکس جیسی چیز نہیں ملی تھی۔ اس مشروب کا بہت زیادہ استعمال موٹاپے کا شکار کرتا ہے، جبکہ اس سے پیدا ہونے والا کیمیائی ردعمل دماغ کو بتاتا ہے کہ ہم کچھ اچھا کر رہے ہیں حالانکہ ایسا ہوتا نہیں، اس کے نتیجے میں چینی کا استعمال ایک عادت بن جاتی ہے جسے ترک کرنا ناممکن سا ہوجاتا ہے جو ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور فالج وغیرہ کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔
مگر یہ مشروب ہماری توقعات سے بھی زیادہ صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ وجوہات جان کر آپ اگلی بار اس کو استعمال کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے ضرور۔
یہ بڑھاپے کی جانب سفر تیز کردیتی ہیں
کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق جو افراد روزانہ کولڈ ڈرنکس کے دو کین نوش کرتے ہیں ان کا بڑھاپے کے جانب سفر کی رفتار اس مشروب سے دور رہنے والے لوگوں کے مقابلے دوگنا زیادہ ہوتی ہے۔
گزشتہ برس کی اس تحقیق کے مطابق کولڈ ڈرنکس کے شوقین افراد کے ڈی این اے میں تبدیلیاں آتی ہیں اور وہ حقیقی عمر سے لگ بھگ پانچ سال بڑے نظر آنے لگتے ہیں جس کی وجہ اس مشروب کا ڈی این اے میں موجود ٹیلومیئرز پر اثر انداز ہوتا ہے جن کی مقدار میں کمی آنے سے خلیات کی توڑ پھوڑ کی مرمت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بڑھاپے کی جانب سفر تیز ہوجاتا ہے۔
چینی کی طلب بڑھا دیتی ہیں
دن بھر میں دو کولڈ ڈرنکس کا استعمال لوگوں کے اندر مٹھاس کے حوالے سے تصور کو متاثر کرتا ہے اور ان کے اندر چینی کی طلب میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
برطانیہ کی بنگور یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ مٹھاس کا دماغ کے طلب کے حصے سے مضبوط تعلق قائم ہوجاتا ہے اس لیے لوگ چینی کا بہت زیادہ مقدار میں استعمال کرنے لگتے ہیں جبکہ کولڈ ڈرنکس میں موجود بلبلے بھی یہ اثر بڑھاتے ہیں کیونکہ اس سے ہماری زبان کے ذائقے کی لذت بڑھ جاتی ہے۔
کینسر کا باعث
وہ خواتین جو ہفتہ بھر میں تین سے زائد بار کولڈ ڈرنکس کا استعمال کرتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ کینیڈا کی لاوال یونیورسٹی کی جانب سے گزشتہ برس ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جتنا زیادہ خواتین یہ میٹھے مشروبات جسم کا حصہ بناتی ہیں ان کے اندر بریسٹ کینسر کا خطرہ بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔
تاہم محققین یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ مشروبات کینسر کا باعث بن جاتے ہیں۔
ہڈیوں کو نقصان
بہت زیادہ مقدار میں کولا مشروبات کا استعمال ہڈیوں کی مضبوطی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ بوسٹن کی ٹفٹس یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ان مشروبات میں چونکہ فاسفورس ایسڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے ہڈیوں کی کثافت کم ہوکر ان میں کمزوری بڑھنے لگتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جسم میں فاسفورس اور کیلشیئم کا قدرتی توازن ہوتا ہے تاہم ان مشروبات کے نتیجے میں فاسفورس کی مقدار بڑھنے پر توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ہڈیوں سے کیلشیئم کا اخراج ہوتا ہے جو ان کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔
معدے کے مسائل
کولڈ ڈرنکس میں شامل کاربونیٹ ایسڈ یا عام الفاظ میں گیس معدے میں جاکر ہوا بھر جانے کا باعث بنتا ہے جس سے پیٹ درد کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔
لندن کے رائل فری ہاسپٹل کی ایک تحقیق کے مطابق اگر آپ پہلے ہی پیٹ میں گیس بھرنے کے مریض ہیں تو ان مشروبات سے جسم کا حصہ بننے والی اضافی گیس صورتحال بدترین بنادیتی ہے، اس کے علاوہ ان مشروبات سے آنتوں کے امراض کا خطرہ بھی بڑھتا ہے جس سے نظام ہاضمے کے مسائل ابھر آتے ہیں۔
دانتوں کے لیے تباہ کن
کولڈ درنکس میں شامل چینی دانتوں کے مسوڑوں میں بیکٹریا کی سرگرمیاں بڑھا دیتی ہے جس کے نتیجے میں مضرصحت ایسڈز کا اخراج ہوتا ہے جو دانتوں کے ٹوٹنے کا باعث بن جاتی ہیں۔
مگر بات یہی تک نہیں برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق یہ مشروب فروٹ جوسز کے مقابلے میں دانتوں کے لیے دس گنا زیادہ تباہ کن ثابت ہوتا ہے چاہے اس میں چینی کی مقدار جوس جتنی ہی ہو یہاں تک کہ چینی سے پاک ڈائٹ مشروبات بھی دانتوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، جس کی وجہ اس میں شامل سٹرک ایسڈ اور کاربونیٹ ایسڈ ہوتا ہے۔
جگر کو نقصان پہنچانے کا باعث
کولڈ ڈرنکس کے نتیجے میں جگر میں چربی بڑھنے کے امراض کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایک اسرائیلی تحقیق کے مطابق جو لوگ روزانہ دو کین کولڈ ڈرنکس کا استعمال کرتے ہیں ان میں جگر کے امراض کا خطرہ پانچ گنا زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پھلوں سے حاصل ہونے والی چینی سے بنے مشروبات جگر میں جذب ہوکر چربی کی شکل میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور مختلف جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھا دیتے ہیں۔
بچوں کے لیے نقصان دہ
کولا مشروبات بچوں کے پیٹ میں موجود دوست بیکٹریا کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
درحقیقت ان مشروبات میں شامل چینی کی بہت زیادہ مقدار ان دوست بیکٹریا کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے اور ان کی تعداد میں کمی سے صحت کو نقصان پہنچانے والے جرثوموں کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور بچے پیٹ کے مختلف امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔